ہم تو گواہ ہیں کہ غلط تھا لکھا گیا

غزل| شبنمؔ شکیل انتخاب| بزم سخن

ہم تو گواہ ہیں کہ غلط تھا لکھا گیا
کیا فیصلہ ہوا تھا مگر کیا لکھا گیا
یہ کیسی منصفی تھی کہ منصف کے روبرو
جھوٹی شہادتوں کو بھی سچا لکھا گیا
مکتوبِ غم ہمارا پڑھا ہی نہیں گیا
ورنہ تو اس میں حال تھا سارا لکھا گیا
ملزم کو بھی تو ملتا ہے کچھ بولنے کا حق
پھر کیوں نہیں بیان ہمارا لکھا گیا
ہم چپ رہے کہ فیصلہ سارا تھا طے شدہ
یعنی جو مدعی نے لکھایا لکھا گیا
بنتی کسی بھی حرف کی پہچان کس طرح
جو بھی لکھا گیا وہ ادھورا لکھا گیا

بھولی نہیں وہ ظلم کہ شبنمؔ سرِ فرات
آتش کو آب دشت کو دریا لکھا گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام