بستی میں کمی کس چیز کی ہے پتھر بھی بہت شیشے بھی بہت

غزل| غلام ربانی تاباںؔ انتخاب| بزم سخن

بستی میں کمی کس چیز کی ہے پتھر بھی بہت شیشے بھی بہت
اس مہر و جفا کی نگری سے دل کے ہیں مگر رشتے بھی بہت
اب کون بتائے وحشت میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
ہاتھوں کا ہوا شہرہ بھی بہت دامن نے سہے صدمے بھی بہت
اک جہد و طلب کے راہی پر بے راہ روی کی تہمت کیوں
سمتوں کا فسوں جب ٹوٹ گیا آوارہ ہوئے رستے بھی بہت
موسم کی ہوائیں گلشن میں جادو کا عمل کر جاتی ہیں
رودادِ بہاراں کیا کہئے شبنم بھی بہت شعلے بھی بہت
ہے یوں کہ طرب کے ساماں بھی ارزاں ہیں جنوں کی راہوں میں
تلووں کے لئے چھالے بھی بہت چھالوں کے لئے کانٹے بھی بہت
کہتے ہیں جسے جینے کا ہنر آسان بھی ہے دشوار بھی ہے
خوابوں سے ملی تسکیں بھی بہت خوابوں کے اڑے پرزے بھی بہت

رسوائی کہ شہرت کچھ جانو حرمت کہ ملامت کچھ سمجھو
تاباںؔ ہوں کسی عنوان سہی ہوتے ہیں مرے چرچے بھی بہت


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام