تھی گزشت اُن کی عجیب ہی وہ جو جان سے تھے گزر گئے

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

تھی گزشت اُن کی عجیب ہی وہ جو جان سے تھے گزر گئے
ہے تمام شہر تحیری جو تیری گلی کے تھے گھر گئے
شب و روز کا ہے معاملہ نہ کوئی صلہ نہ کوئی گلہ
وہ معاملہ دل و جان کا تھا کبھی جی اُٹھے کبھی مر گئے
تمہیں اپنا حال سنائیں کیا تمہیں رمز کوئی بتائیں کیا
وہ چلا گیا تو چلا گیا وہ جو آ گیا تو سنور گئے
نہیں مجھ میں اب کوئی دلبری کہ نفس نفس ہے ستمگری
میرے سارے رنگ اتر گئے میرے سارے خواب بکھر گئے
کسی خواب کا ہو خیال کیا کوئی خواب بھی نہیں درمیاں
کسی رنگ پر کریں کیا نظر کہ مژہ تو خون میں بھر گئے
یہ کہن شتاب نہیں ہے کیا یہ سخن عذاب نہیں ہے کیا
وہی رہ گزار ہے بے قدم اِسی رہ گزار میں سر گئے
وہ خیال کا تھا سماں کوئی وہ گمان کا تھا گماں کوئی
تھی عجیب حالتِ حالِ دل سو ہم اپنے آپ سے ڈر گئے
مجھے چھوڑ کر جو چلے گئے سرِ راہ زردِ حلالِ جاں
وہ تمام لوگ کہاں کے تھے وہ تمام لوگ کدھر گئے

کبھی جشنِ غم بھی منائیں ہم کریں رقص اور کبھی گائیں ہم
وہ تمہارے شام و سحر گئے وہ ہمارے شام و سحر گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام