کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا
سوائے پاسِ آدابِ تکلف اور کیا ہوگا
یہاں وہ کون ہے جو انتخابِ غم پہ قادر ہو
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہوگا
نویدِ سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غمِ ہستی گوارا ہو چکا ہوگا
صلیبِ وقت پر میں نے پکارا تھا محبت کو
مری آواز جس نے بھی سنی ہوگی ہنسا ہوگا
ابھی اک شور‌ ہائے و ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کی ضد میں پیچھے رہ گیا ہوگا
ہمارے شوق کے آسودہ و خوش حال ہونے تک
تمہارے عارض و گیسو کا سودا ہو چکا ہوگا
نوائیں نکہتیں آسودہ چہرے دل نشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہوگا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہنر بھی سیکھنا ہوگا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوبِ شوق اس نے
سرِ انگشت حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہوگا
ہے نصفِ شب وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہوگا
صبا شکوا ہے مجھ کو ان دریچوں سے دریچوں سے
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام