آنسو ڈھلکا ٹپ سے گرا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا

غزل| لبیبؔ تیموری انتخاب| بزم سخن

آنسو ڈھلکا ٹپ سے گرا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
شعلہ بھڑکا سرد ہوا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
پھول کھلا انگارا سا اور چشم و چراغ باغ ہوا
کوڑا کرکٹ ہو کے گرا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
بلبل کی دل دوز نوا سے کانپ اٹھا گلشن صحرا
احساس نے جونہی منہ پھیرا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
ایک پرندے کا سایہ جو سطحِ زمیں پر چلتا تھا
جب تھک کے پرندہ بیٹھ گیا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
بجلی چمکی چھائی گھٹا اور چپے چپے مینہ برسا
دھوپ کھلی سورج نکلا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
دائم قائم دنیا ہے یہ چلتے پھرتے میلوں سے
آیا اک اور ایک گیا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا
دولت عزت حسن جوانی قوتِ علم اور عقل ہنر
سب کو چھوڑا چل نکلا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا

شب جو تارا چھٹکا تھا اور شمع بزمِ ناز رہا
وہ صبح سویرے ڈوب گیا پھر جیسے وہ تو کچھ بھی نہ تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام