عمر بھر رسمِ پیش و پس میں رہے

غزل| اتباف ابرکؔ انتخاب| بزم سخن

عمر بھر رسمِ پیش و پس میں رہے
کیا عجب پھر کہ خار و خس میں رہے
آپ کےغم کی دسترس میں رہے
اس برس بھی اُسی برس میں رہے
صید ہوتے تو کوئی بات نہ تھی
ہو کےصیاد ہم قفس میں رہے
بے بسی اور کس کو کہتے ہیں
جو نہیں ہے اسی کے بس میں رہے
کل ملا کر ہے داستاں اتنی
خود سےملنے کی بس ہوس میں رہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام