ناداروں کو علم کے موتی آقاؐ نے انمول دیے

نعت| اعجازؔ رحمانی انتخاب| بزم سخن

ناداروں کو علم کے موتی آقاؐ نے انمول دیے
بابِ جہالت بند کیا اور ذہنوں کے در کھول دیے
انگاروں کو پھول بنایا ذرّوں کو خورشید کیا
جن ہونٹوں میں زہر بھرا تھا اُن کو میٹھے بول دیے
آپ کی قربت نے لوگوں کو ایک نیا احساس دیا
جتنے چاہنے والے تھے کردار انہیں بے جھول دیے
خشک پسينہ ہونے سے پہلے مزدورى مزدور كو دى
منگتوں كو محنت سکھلائى اور پھنكوا كشكول دیے
میرے آقا آپؐ نے اُن کو درس دیا ہے محنت کا
دُنیا کے لوگوں نے جن کے ہاتھوں میں کشکول دیے
آپؐ نے اپنے حسنِ عمل سے سچ کی جوت جگائی ہے
کفر کی تیز ہوا سے ہوں گے کیسے ڈانوں ڈول دیے
يادِ مدينہ جب بھی آئی ہم جيسے مجبوروں كو
طائرِ جسم و جاں نے ہمارے اڑنے كو پر تول دیے
آپ سے بڑھ کر انسانوں کا اور کوئی ہمدرد نہیں
سنگ زنوں کو سنگ کے بدلے پیار کے موتی تول دیے
مدحت کا ٹوٹا نہ تسلسل گنبدِ سبز کے سائے میں
ساتھ زباں نے چھوڑ دیا تو آنکھ نے موتی رول دیے

بے کیفی کے موسم میں اِک کیف ہوا طاری اعجازؔ
نغمۂ نعتِ سرورِ دیں نے رنگ فضا میں گھول دیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام