وصل کی رات تو راحت سے بسر ہونے دو

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

وصل کی رات تو راحت سے بسر ہونے دو
شام ہی سے ہے یہ دھمکی کہ سحر ہونے دو
ناوکِ ناز کا پہلو میں گزر ہونے دو
کب سے برباد ہے آباد یہ گھر ہونے دو
دیکھنا کیسی برابر کی پڑیں گی چوٹیں
یار کا آئینہ خانے میں گزر ہونے دو
وصل ہو قتل ہو جو مدِّ نظر ہو ہوجائے
یا ادھر ہونے دو یا مجھ کو ادھر ہونے دو
جس نے یہ درد دیا ہے وہ دوا بھی دے گا
لا دوا ہے جو مرا دردِ جگر ہونے دو
میں غریب اور غریبوں کا خدا والی ہے
ہونے دو سارے زمانے کو ادھر ہونے دو
تلملانے میں تڑپنے میں کمی کی کس دن
ہے جو اس پر بھی خفا دردِ جگر ہونے دو
کبر سب خاک میں مل جائے گا مغروروں کا
اک ذرا گورِ غریباں میں گزر ہونے دو
ذکر رخصت کا ابھی سے نہ کرو بیٹھو بھی
جانِ من رات گزرنے دو سحر ہونے دو
ہم تصور میں نہ کھینچیں یہ نہ ہوگا ہم سے
لاکھ نازک ہے حسینوں کی کمر ہونے دو
تو سہی مجھ سے سوا صبر تڑپ کر چیخے
میرے دل تک تو ذرا اس کا گزر ہونے دو
شوق سے تم ہو در و بام پہ سرگرمِ خرام
دونوں عالم ہوں اگر زیر و زبر ہونے دو
وصلِ دشمن کی خبر مجھ سے ابھی کچھ نہ کہو
ٹھہرو ٹھہرو مجھے اپنی تو خبر ہونے دو
ہائے وہ وصل کی شب ان کا ادا سے کہنا
باندھنے دو مجھے جوڑے کو سحر ہونے دو
جاگ کر کاٹتے ہیں ہجر میں ہم بھی راتیں
رتجگے ہوتے ہیں گر غیر کے گھر ہونے دو
آنے دو آنے دو زلفوں کو ذرا گالوں پر
شاہدِ شب کو ہم آغوشِ سحر ہونے دو
خواب میں آ کے وہ بولے مرے ارمانوں سے
بے خبر کو نہ خبر دارِ خبر ہونے دو
چھیڑتے کیوں ہو جوانی میں حسینوں کو امیرؔ
رات ہی بھر کا یہ جوبن ہے سحر ہونے دو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام