کرب چہروں پہ سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں

غزل| ملک زادہ جاویدؔ احمد انتخاب| بزم سخن

کرب چہروں پہ سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم وطن چھوڑ کے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
زندگی ایک کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
عمر بھر جن کو میسر نہیں ہوتی منزل
خاک راہوں میں اڑاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کچھ پرندے ہیں جو سوکھے ہوئے دریاؤں سے
علم کی پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
زندہ رہتے ہیں کئی لوگ مسافر کی طرح
جو سفر میں کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کا پیغام ملا کرتا ہے غیروں سے مجھے
وہ مرے پاس خود آتے ہوئے مر جاتے ہیں

جن کو اپنوں سے توجہ نہیں ملتی جاویدؔ
ہاتھ غیروں سے ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام