فکرِ ایں و آں نے جب مجھ کو پریشاں کر دیا

غزل| خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ انتخاب| بزم سخن

فکرِ ایں و آں نے جب مجھ کو پریشاں کر دیا
میں نے سر نذرِ جنونِ فتنہ ساماں کر دیا
ان کو تو نے کیا سے کیا شوقِ فراواں کر دیا
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کر دیا
ہو چکے تھے وہ عیاں پھر ان کو پنہاں کر دیا
ہائے کیا اندھیر تو نے چشمِ حیراں کر دیا
طبعِ رنگیں نے مری گل کو گلستاں کر دیا
کچھ سے کچھ حسنِ نظر نے حسنِ خوباں کر دیا
زاہدوں کو بھی شریکِ بزمِ رنداں کر دیا
سیکڑوں کو دخترِ زر نے مسلماں کر دیا
جاں سپردِ تیر اور خوں صرف پیکاں کر دیا
پاس جو کچھ تھا مرے سب نذرِ مہماں کر دیا
دردِ دل نے اور سب دردوں کا درماں کر دیا
عشق کی مشکل نے ہر مشکل کو آساں کر دیا
دل قفس میں لگ چلا تھا پھر پریشاں کر دیا
ہم صفیرو تم نے کیوں ذکرِ گلستاں کر دیا
جب فلک نے مجھ کو محرومِ گلستاں کر دیا
اشک ہائے خوں نے مجھ کو گل بداماں کر دیا
یہ تری زلفیں یہ آنکھیں یہ ترا مکھڑا یہ رنگ
حور کو اللہ کی قدرت نے انساں کر دیا
ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم
کر کے جرأت ان سے آج اظہارِ ارماں کر دیا
تلخ کر دی زندگی شورش تری کچھ حد بھی ہے
اف مرے ہر زخم کو تو نے نمک داں کر دیا
زلف و رخ کو ڈھانکئے یہ بھی کوئی انداز ہے
اس کو حیراں کر دیا اس کو پریشاں کر دیا
پھونک دی اک روح تو مجھ میں مری ہر آہ نے
دردِ دل نے میری رگ رگ کو رگِ جاں کر دیا
تو نظر آنے لگا کہ اس قدر گہری نگاہ
میں نے جس ذرّہ کو دیکھا چاہِ کنعاں کر دیا
ٹوٹ جاتے کیوں نہ ٹانکے زخم کے دیکھا غضب
شاملِ بخیہ مرا تارِ گریباں کر دیا
جوشِ وحشت کی مرے دیکھو عجائب کاریاں
دشت کو ذرّہ تو ذرّہ کو بیاباں کر دیا
میرے چارہ گر کا تو دیکھے کوئی حسنِ علاج
محو دل سے امتیازِ درد و درماں کر دیا
چپکے چپکے اندر اندر تو نے اے شوقِ نہاں
دل کو میرے رازِ دارِ حسنِ پنہاں کر دیا
جن کی استادی پہ خود حکمت بجا کرتی تھی ناز
ایک امی نے انہیں طفل‌ِ دبستاں کر دیا
میں ہوں رندِ پاک باطن دامنِ تر کو نہ دیکھ
دخترِ زر کو بھی میں نے پاک داماں کر دیا
مجھ کو سوجھا بھی تو کیا مجذوبؔ وحشت کا علاج
میں نے دل وابستۂ زلفِ پریشاں کر دیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام