اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو

نظم| شاہدؔ کبیر انتخاب| بزم سخن

کوئی لے جاتا ہے اُس تک نہ قضا آتی ہے
آپ ہو کر مجھے جانے میں حیا آتی ہے
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
مجبور کر کے مجھ کو مرے یار لے چلو
شاید یہ میرا وہم ہو میرا خیال ہو
ممکن ہے میرے بعد اسے میرا ملال ہو
پچھتا رہا ہو اب مجھے در سے اٹھا کے وہ
بیٹھا ہو میری راہ میں آنکھیں بچھا کے وہ
اس نے بھی تو کیا تھا مجھے پیار لے چلو
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
اب اس گلی میں کوئی نہ آئے گا میرے بعد
اس در پہ کون خون بہائے گا میرے بعد
میں نے تو سنگ و خشت سے ٹکرا کے اپنا سر
گلنار کر دئیے تھے لہو سے وہ بام و در
پھر منتظر ہیں وہ در و دیوار لے چلو
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
وہ جس نے میرے سینے کو زخموں سے بھر دیا
چھڑوا کے اپنا در مجھے در در کا کر دیا
مانا کہ اس کے ظلم و ستم سے ہوں نیم جاں
پھر بھی میں سخت جاں ہوں پہنچ جاؤں گا وہاں
سو بار جاؤں گا مجھے سو بار لے چلو
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
دیوانہ کہہ کے لوگوں نے ہر بات ٹال دی
دنیا نے میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
چاہو جو تم تو میرا مقدر سنوار دو
یارو یہ میرے پاؤں کی بیڑی اتار دو
یا کھینچتے ہوئے سرِ بازار لے چلو
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
اس کی گلی کو جانتا پہچانتا ہوں میں
وہ میری قتل گاہ ہے یہ مانتا ہوں میں
اس کی گلی میں موت مقدر کی بات ہے
شاہدؔ یہ موت اہلِ وفا کی حیات ہے
میں خود بھی موت کا ہوں طلب گار لے چلو
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام