مستی میں فروغِ رخِ جاناں نہیں دیکھا

غزل| اصغرؔ گونڈوی انتخاب| بزم سخن

مستی میں فروغِ رخِ جاناں نہیں دیکھا
سنتے ہیں بہار آئی گلستاں نہیں دیکھا
زاہد نے مرا حاصلِ ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
آئے تھے سبھی طرح کے جلوے مرے آگے
میں نے مگر اے دیدۂ حیراں نہیں دیکھا
اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پُرآشوب
فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا
ہر حال میں بس پیشِ نظر ہے وہی صورت
میں نے کبھی روئے شبِ ہجراں نہیں دیکھا
کچھ دعوئ تمکیں میں ہے معذور بھی زاہد!
مستی میں تجھے چاک گریباں نہیں دیکھا
رودادِ چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں!
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا
مجھ خستہ و مہجور کی آنکھیں ہے ترستی
کب سے تجھے اے سروِ خراماں نہیں دیکھا
کیا کیا ہوا ہنگامِ جنوں یہ نہیں معلوم!
کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا
شائستۂ صحبت کوئی ان میں نہیں اصغرؔ
کافر نہیں دیکھے کہ مسلماں نہیں دیکھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام