میں عکسِ آرزو تھا ہوا لے گئی مجھے

غزل| زیبؔ غوری انتخاب| بزم سخن

میں عکسِ آرزو تھا ہوا لے گئی مجھے
زندانِ آب و گل سے چھڑا لے گئی مجھے
کیا بچ رہا تھا جس کا تماشا وہ دیکھتا
دامن میں اپنے خاک چھپا لے گئی مجھے
کچھ دور تک تو چمکی تھی میرے لہو کی دھار
پھر رات اپنے ساتھ بہا لے گئی مجھے
جز تیرگی نہ ہاتھ لگا اس کا کچھ سراغ
کن منزلوں سے گردِ نوا لے گئی مجھے
کس کو گمان تھا کہ کہاں جا رہا ہوں میں
اک شام آئی اور بُلا لے گئی مجھے
پرواز کی ہوس نے اسیرِ فلک رکھا
رخصت ہوئی تو دام میں ڈالے گئی مجھے
ساکت کھڑا تھا وقت مگر تیشہ زن ہوا
پتھر کی تہہ سے زیبؔ نکالے گئی مجھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام