اے حسن جب سے راز ترا پا گئے ہیں ہم

غزل| اجملؔ اجملی انتخاب| بزم سخن

اے حسن جب سے راز ترا پا گئے ہیں ہم
ہستی سے اپنی اور قریب آ گئے ہیں ہم
یوں بھی ہوا کہ جان گنوا دی ترے لئے
یوں بھی ہوا کہ تجھ سے بھی کترا گئے ہیں ہم
راہِ وفا میں ایسے مقامات بھی ملے
اپنا سرِ نیاز بھی ٹھکرا گئے ہیں ہم
یادش بخیر اک گلِ شاداب تھے کبھی
ایسی خزاں پڑی ہے کہ کمھلا گئے ہیں ہم
صبحِ وصال تھی تو طبیعت تھی باغ باغ
شامِ فراق آئی تو سنولا گئے ہیں ہم
انسان تیری فتح پہ اب بھی یقین ہے
گو اپنی زندگی سے بھی گھبرا گئے ہیں ہم
محرومیوں کا بارِ گراں دوش پر لئے
اے موت سن کہ تیرے قریب آ گئے ہیں ہم
اپنے سبو میں تلخیٔ دوراں سمیٹ کر
با صد خلوص نوش بھی فرما گئے ہیں ہم
تاریخِ انقلابِ زمانہ سے پوچھ لو
جب جب صدا ملی سرِ دار آ گئے ہیں ہم
اجملؔ جب ان کی بزم میں چھیڑی ہے دل کی بات
اپنے تو خیر غیر کو تڑپا گئے ہیں ہم



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام