جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے ہم گزرے

غزل| سید صغیر صفیؔ انتخاب| بزم سخن

جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے ہم گزرے
تلاشِ حسن میں اک روز جاں سے ہم گزرے
لگا رہے ہیں سبھی دوست صرف اندازے
انھیں خبر ہی نہیں ہے کہاں سے ہم گزرے
بچی ہیں آنکھیں ہماری نہ دل سلامت ہے
کوئی نہ گزرے خدایا جہاں سے ہم گزرے
اٹھی ہوئی تھیں کسی اور سمت وہ آنکھیں
زرا سی دیر کو بس درمیاں سے ہم گزرے

صغیرؔ راہِ محبت بھی خواب ہو گئی اب
کہ اب تو لگتا نہیں ہے یہاں سے ہم گزرے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام