جنونِ کار گر ہے اور میں ہوں

غزل| فراؔق گورکھپوری انتخاب| بزم سخن

جنونِ کار گر ہے اور میں ہوں
حیاتِ بے خبر ہے اور میں ہوں
کہاں میں آ گیا اے زورِ پرواز
وبالِ بال و پر ہے اور میں ہوں
نگاہِ اولیں سے ہو کے برباد
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں
مبارک یادِ ایّامِ اسیری
غمِ دیوار و در ہے اور میں ہوں
بہارِ حسن کی نیرنگیاں ہیں
غمِ وحشت اثر ہے اور میں ہوں
سکوتِ ناز سے ہر اک گلہ کا
جوابِ مختصر ہے اور میں ہوں
تری جمعیتیں ہیں اور تو ہے
طوافِ در بدر ہے اور میں ہوں
کوئی ہو سست پیماں بھی تو یوں ہو
یہ شامِ بے سحر ہے اور میں ہوں
نگاہِ جانستاں ہے اور رگِ جاں
کمالِ چارہ گر ہے اور میں ہوں
تغافل حسن کا ہے اور تو ہے
نصیبِ بہرہ ور ہے اور میں ہوں
مٹے ہنگامۂ عشقِ فغاں سنج
غمِ بے شور و شر ہے اور میں ہوں
نگاہِ بے محابا تیرے صدقے
کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہوں
ٹھکانا ہے کچھ اِس عذرِ ستم کا
تری نیچی نظر ہے اور میں ہوں
فراقؔ ایک ایک حسرت مٹ رہی ہے
یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام