کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

غزل| فراؔق گورکھپوری انتخاب| بزم سخن

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
کہوں یہ کیسے ادھر دیکھ یا نہ دیکھ ادھر
کہ درد درد ہے پھر بھی نظر نظر پھر بھی
خوشا اشارۂ پیہم زہے سکوت نظر
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں
مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی
شبِ فراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شامِ بے سحر پھر بھی
کہیں یہی تو نہیں کاشفِ حیات و ممات
یہ حسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کئے تیرے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی
غمِ فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہو گا
یہ شامِ ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی
فنا بھی ہو کے گراں بارئی حیات نہ پوچھ
اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ دردِ سر پھر بھی
ستم کے رنگ ہیں ہر التفاتِ پِنہاں میں
کرم نما ہیں تیرے جور سر بسر پھر بھی
اگرچہ بے خودیٔ عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام