زر دار کے شعارِ نمائش کا کیا قصور

غزل| اقبال خلشؔ انتخاب| بزم سخن

زر دار کے شعارِ نمائش کا کیا قصور
تم ہو غلامِ نفس تو خواہش کا کیا قصور
چھائی ہوئی گھٹا تھی اُڑا لے گئی ہوا
تقدیر میں ہے پیاس تو بارش کا کیا قصور
انگارہ تم نے پھول سمجھ کر اٹھا لیا
تم ہی بتاؤ! سوزشِ آتش کا کیا قصور
ناز و ادا تو حسن کی فطرت ہے دوستو!
اُس بے وفا کے شیوۂ نازش کا کیا قصور
سورج سے خود نگاہ ملائی تھی آپ نے
بینائی کھو گئی ہے تو تابش کا کیا قصور
ڈوبا رہے وہ نشّۂ کبر و غرور میں
دانستہ لڑکھڑائے تو لغزش کا کیا قصور

اس کو مصاحبت کا ہنر آ گیا خلشؔ
اسلوبِ التماس و گزارش کا کیا قصور


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام