جوانی کار فرمائے محبت ہوتی جاتی ہے

غزل| سروشؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

جوانی کار فرمائے محبت ہوتی جاتی ہے
قیامت میں بپا تازہ قیامت ہوتی جاتی ہے
محبت آئینہ دارِ حقیقت ہوتی جاتی ہے
مری نظروں میں ہر شے خوب صورت ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں روز و شب پر تیرہ قسمت ہوتی جاتی ہے
ہر اک صبحِ مسرت شامِ حسرت ہوتی جاتی ہے
ہر اک خواہش ہر اک امید رخصت ہوتی جاتی ہے
محبت کے لئے ان سے محبت ہوتی جاتی ہے
کبھی رازِ طرب کی جستجو تھی اب یہ عالم ہے
خوشی کے نام سے بھی دل کو نفرت ہوتی جاتی ہے
سکوں تو مٹ چکا بیتابیاں بھی مٹتی جاتی ہیں
دلِ زندہ کی تکمیلِ شہادت ہوتی جاتی ہے
رگیں کھینچتی ہیں دل سینے سے باہر نکلا آتا ہے
گلے مل مل کے ان کی یاد رخصت ہوتی جاتی ہے
شکن لاؤ جبیں پر یا نگاہِ لطف سے دیکھو
ہر اک صورت مرے مٹنے کی صورت ہوتی جاتی ہے
لڑکپن اور احساسِ جوانی توبہ ہے توبہ
کلی کھلنے سے پہلے مستِ نکہت ہوتی جاتی ہے
مبارک حسنِ بے پروا کو بے پروائیاں اپنی
محبت آپ غم‌ خوارِ محبت ہوتی جاتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام