گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے

غزل| تلوک چند محروؔم انتخاب| بزم سخن

گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے
آخر شبِ تاریک کا انجام سحر ہے
وہ شام کی صورت ہے نہ وہ رنگِ سحر ہے
کس کوکبِ منحوس کا یا رب یہ اثر ہے
افسانۂ غم سینۂ بلبل میں ہے فریاد
اوراقِ گلِ تر میں بہ عنوان دگر ہے
بے درد ہے انسان تو ہیں اس کے ہنر عیب
ہے دل میں اگر درد تو ہر عیب ہنر ہے
ثابت ہے بہر طور غمِ عشق رمِ حسن
آرام کو پوچھو تو ادھر ہے نہ ادھر ہے
مصنوع کو صانع سے جدا کر نہیں سکتے
آئینے میں عکسِ ہنر آئینہ گر ہے
روتی ہوئی آنکھوں میں غرقابِ تبسم
پنجاب ہے دہلی میں جو اب راہ گزر ہے
پھولوں میں ترا رنگ ہے کانٹوں میں تری نوک
یہ حسن ترا ہے کہ مرا حسنِ نظر رہے

محرومؔ مگر عشق تمہارا ہے ریائی
فریاد میں تاثیر نہ آہوں میں اثر ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام