نظر اٹھا دلِ ناداں یہ جستجو کیا ہے

غزل| تلوک چند محروؔم انتخاب| بزم سخن

نظر اٹھا دلِ ناداں یہ جستجو کیا ہے
اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے
کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ کو
سرور بادۂ بے ساغر و سبو کیا ہے
قفس عذاب سہی بلبلِ اسیر مگر
ذرا یہ سوچ کہ وہ دامِ رنگ و بو کیا ہے
گدا نہیں ہیں کہ دستِ سوال پھیلائیں
کبھی نہ آپ نے پوچھا کہ آرزو کیا ہے
نہ میرے اشک میں شامل نہ ان کے دامن پر
میں کیا بتاؤں انہیں خونِ آرزو کیا ہے
سخن ہو سمع خراشی تو خامشی بہتر
اثر کرے نہ جو دل میں وہ گفتگو کیا ہے
برا تو کہتے ہو محرومؔ شاعری کو مگر
نہ ہو یہ چیز تو حضرت کی آبرو کیا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام