اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

غزل| کفیل آزرؔ امروہوی انتخاب| حنظلہ سید

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے
ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دیے
اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آزرؔ
نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام