سبھی دو گھڑی کے ہیں میہماں یہاں روز کس کا قیام ہے

غزل| تابشؔ ریحان انتخاب| بزم سخن

سبھی دو گھڑی کے ہیں میہماں یہاں روز کس کا قیام ہے
جو وفا کی راہ میں مٹ گئی اسی زندگی کو دوام ہے
یہ اصول کیسا اصول ہے اے فقیہِ شہر جواب دے
وہی تو کرے تو حلال ہے وہی میں کروں تو حرام ہے
اسی آب و تاب کے ساتھ ہی ہاں جہاں میں باقی ہے آج بھی
جو نہ مٹ سکا نہ بدل سکا وہ کلام رب کا کلام ہے
مجھے حق ہی کیا جو ترے سوا کسی دوسرے سے کروں وفا
مرا نفس تیرا غلام ہے مری زندگی ترے نام ہے
ملیں مجرموں کو معافیاں ہوئیں بے خطاؤں کو پھانسیاں
یہ اصول کیسا اصول ہے یہ نظام کیسا نظام ہے
تو نہیں جو اے مرے ہم نشیں تو جہاں کی رت ہی بدل گئی
نہ وہ دھوپ ہے نہ وہ چھاؤں ہے نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے
اسے اپنے پاس بٹھاؤں کیوں دل و جان اس پہ لٹاؤں کیوں
جو ہے فتنہ پرور و خود غرض اسے دور ہی سے سلام ہے
سرِ بزم تابشِؔ خوش نوا تو نہ چھیڑ نغمۂ جاں فزا
یہ ہے شیخ وقت کی خانقہ یہاں شعر گوئی حرام ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام