دل ابھی تک جوان ہے پیارے

غزل| حفیظؔ جالندھری انتخاب| بزم سخن

دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
تو مرے حال کا خیال نہ کر
اس میں بھی ایک شان ہے پیارے
تلخ کر دی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے
وقت کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے
جانے کیا کہہ دیا تھا روزِ ازل
آج تک امتحان ہے پیارے
ہم ہیں بندے مگر ترے بندے
یہ ہماری بھی شان ہے پیارے
نام ہے اس کا ناصحِ مشفق
یہ مرا مہربان ہے پیارے
کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ
تیرا اپنا گمان ہے پیارے
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے
ساری دنیا کو ہے غلط فہمی
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے
تیرے کوچے میں ہے سکوں ورنہ
ہر زمیں آسمان ہے پیارے
خیر فریاد بے اثر ہی سہی
زندگی کا نشان ہے پیارے
شرم ہے احتراز ہے کیا ہے
پردہ سا درمیان ہے پیارے
عرض مطلب سمجھ کے ہو نہ خفا
یہ تو اک داستان ہے پیارے
جنگ چھڑ جائے ہم اگر کہہ دیں
یہ ہماری زبان ہے پیارے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام