دورِ رفتہ دیکھ لیتا ہوں گلستاں دیکھ کر

غزل| حفیظؔ جالندھری انتخاب| بزم سخن

دورِ رفتہ دیکھ لیتا ہوں گلستاں دیکھ کر
گل کو خنداں دیکھ کر بلبل کو گریاں دیکھ کر
ناخدا پر مطمئن تھے بندگانِ ناخدا
اب خدا یاد آ رہا ہے موجِ طوفاں دیکھ کر
سنگ دل سمجھا برہمن شیخ سمجھے بد مذاق
ہنس پڑے دونوں مجھے اب تک مسلماں دیکھ کر
شکوہ فرماتے ہی الٹی منتیں کرنی پڑیں
دل پشیماں ہو گیا ان کو پیشماں دیکھ کر
اس مشقت گاہ میں راحت کا یہ گوشہ حفیظؔ!
دیکھ لو اور خوش رہو گورِ غریباں دیکھ کر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام