میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے

غزل| حفیظؔ جالندھری انتخاب| بزم سخن

میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے
پھر آ گیا کوئی رخِ زیبا لئے ہوئے
پھر دل میں آ بسی ہے کسی انجمن کی یاد
اجڑے ہوئے بہشت کا نقشہ لئے ہوئے
یہ کم نگاہیاں ہیں تو پھر کس امید پر
بیٹھا رہوں فریبِ تمنا لئے ہوئے
دل گیسوئے بتاں میں الجھ کر نہ گر پڑے
اٹھا تو ہے خدا کا سہارا لئے ہوئے
اس فتنۂ شباب کا عالم نہ پوچھیے
ایک حشر اٹھ رہا ہے تماشہ لئے ہوئے
حسرت برس رہی ہے رخِ نامراد پر
یہ کون جا رہا ہے تمنا لئے ہوئے
آئی ہے بے حیا میرا ایمان لوٹنے
دنیا کھڑی ہے دولتِ دنیا لئے ہوئے
گو آج تک کسی سے توقع نہ تھی حفیظؔ
پھرتا ہوں اک جہان کا شکوہ لئے ہوئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام