بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو

غزل| زبیرؔ رضوی انتخاب| بزم سخن

بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو
تعلق کی گراں باری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو
بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو
برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے
ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو
دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمنِ جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو
بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹوٹ کر ملنا
کوئی بڑھتی ہوئی دوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو
نقوشِ خال و خد میں دل نوازی کی ادا کم ہے
حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو

ہمیں پر ختم کیوں ہے داستانِ خانہ ویرانی
جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام