تھا حرفِ شوق صید ہوا کون لے گیا

غزل| زبیرؔ رضوی انتخاب| بزم سخن

تھا حرفِ شوق صید ہوا کون لے گیا
میں جس کو سن سکوں وہ صدا کون لے گیا
اک میں ہی جامہ پوش تھا عریانیوں کے بیچ
مجھ سے مری عبا و قبا کون لے گیا
احساس بکھرا بکھرا سا ہارا ہوا بدن
چڑھتی حرارتوں کا نشہ کون لے گیا
باتوں کا حسن ہے نہ کہیں شوخیٔ بیاں
شہرِ نوا سے حرف و صدا کون لے گیا
میں کب سے ہوں اسیر سرابوں کے جال میں
نیلے سمندروں پہ گھٹا کون لے گیا
مے خانہ چھوڑ گھر کی فضاؤں میں آ گئے
ہم سے متاعِ لغزشِ پا کون لے گیا

میں جب نہ تھا تو مجھ پہ بہت قہقہے لگے
احباب سے سرشتِ وفا کون لے گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام