ربطِ جان و دل بھی ہے رنجشیں بھی ہوتی ہیں

غزل| زبیرؔ رضوی انتخاب| بزم سخن

ربطِ جان و دل بھی ہے رنجشیں بھی ہوتی ہیں
دھوپ بھی نکلتی ہے بارشیں بھی ہوتی ہیں
ہلکی ہلکی بوندوں میں کچھ بدن تو بھیگے گا
موسموں کی صحبت میں لغزشیں بھی ہوتی ہیں
خواب نیند آنکھوں میں اک عجیب ان بن ہے
اس میں لیلۓ شب کی سازشیں بھی ہوتی ہیں
اس کی دید کا موسم شاخِ دل ہری رکھے
وہ نظر نہ آئے تو پرسشیں بھی ہوتی ہیں
سیلِ بے پناہ جیسے سب بہا کے لے جائے
تن بدن میں کچھ ایسی شورشیں بھی ہوتی ہیں
خواب کی زمینوں پر گھر بنا کے رہتے ہیں
جانتے ہیں پیروں میں گردشیں بھی ہوتی ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام