میں طیبہ کو جاؤں یہ جی چاہتا ہے

نعت| فضاؔء فانیہ انتخاب| بزم سخن

میں طیبہ کو جاؤں یہ جی چاہتا ہے
حرم دیکھ آؤں یہ جی چاہتا ہے
مدینے کی گلیوں میں مسکن ہو میرا
وہیں گھر بساؤں یہ جی چاہتا ہے
وہ شفاف زمزم وہ شیرں کھجوریں
مزے سے میں کھاؤں یہ جی چاہتا ہے
میرے سامنے ہو جو آقا کا روضہ
غمِ دل سناؤں یہ جی چاہتا ہے
ہاں میزابِ رحمت سے بہتا ہو چشمہ
اور اس میں نہاؤں یہ جی چاہتا ہے
اگرچہ سبب پاس کوئی نہیں ہے
مگر پھر بھی جاؤں یہ جی چاہتا ہے
نہیں ہو سکی مجھ سے خدمت نبی کی
غلامی میں آؤں یہ جی چاہتا ہے
مجھے موت لینے کو جس دم بھی آئے
بقیع کو میں پاؤں یہ جی چاہتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام