بیٹھے رہے اور بن نہ سکی بات ہماری

غزل| ظفرؔ اقبال انتخاب| بزم سخن

بیٹھے رہے اور بن نہ سکی بات ہماری
کیا کیجئے اتنی ہی تھی اوقات ہماری
کچھ اپنے سوا ہم کو دکھائی نہیں دیتا
رہتی ہے فقط پیش نظر ذات ہماری
دشنام ہے رسوائی ہے اور طعنۂ اغیار
ہوتی ہے تواضع یہی دن رات ہماری
خوش فہم ہوں جتنے بھی زیادہ مگر اے کاش
تصدیق تو کرتے کبھی حالات ہماری
ممکن ہی نہیں اپنے مقدر کا بدلنا
جب تک کہ بدلتی نہیں عادات ہماری
سو جوتے بھی کھانا پڑے سو پیاز بھی ہم کو
اکثر رہی ایسی ہی مدارات ہماری
اب ان کے اشارات کی تکمیل ہے لازم
جن کے لئے ہونا تھیں ہدایات ہماری
دشمن کو یہ مژدہ ہو کہ زحمت نہ اٹھائے
خود اپنے مخالف ہیں مہمات ہماری

اوروں سے چلن کوئی الگ ہے ظفرؔ اپنا
مشہور ہیں عالم میں حکایات ہماری


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام