خاموشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے

غزل| ظفرؔ اقبال انتخاب| بزم سخن

خاموشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشہ اب سرِ بازار ہونا چاہئے
خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے
ڈوب کر مرنا بھی اسلوب محبت ہو تو ہو
وہ جو دریا ہے تو اس کو پار ہونا چاہئے
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
بات پوری ہے ادھوری چاہئے اے جانِ جاں
کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہئے
دوستی کے نام پر کیجے نہ کیوں کر دشمنی
کچھ نہ کچھ آخر طریقِ کار ہونا چاہئے

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام