یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے

غزل| فناؔ نظامی کانپوری انتخاب| بزم سخن

یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زلفِ پریشاں سنور نہ جائے
وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
میں آج گلستاں میں بلا لوں بہار کو
لیکن یہ چاہتا ہوں خزاں روٹھ کر نہ جائے
پیدا ہوئے ہیں اب تو مسیحا نئے نئے
بیمار اپنی موت سے پہلے ہی مر نہ جائے
کر لی ہے توبہ اس لئے واعظ کے سامنے
الزامِ تشنگی مرے ساقی کے سر نہ جائے
ساقی پلا شراب مگر یہ رہے خیال
آلامِ روزگار کا چہرہ اتر نہ جائے
میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لئے
ترکِ تعلقات کا احساس مر نہ جائے

مسرورِ دیدِ حسن ہے اس واسطے فناؔ
دنیا کے عیب پر کبھی میری نظر نہ جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام