ترے اہلِ درد کے روز و شب اسی کشمکش میں گزر گئے

غزل| شمیمؔ جے پوری انتخاب| بزم سخن

ترے اہلِ درد کے روز و شب اسی کشمکش میں گزر گئے
کبھی غم میں ڈوب کے رہ گئے کبھی ڈوبتے ہی ابھر گئے
یہ مقامِ عشق ہے کون سا نہ شکایتیں ہیں نہ شکریے
جو ترے ستم پہ نثار تھے وہ ترے کرم سے بھی ڈر گئے
سرِ راہ دیر و حرم کہیں جو ملیں بھی ہوں تو عجب نہیں
ہمیں کیا خبر تری جستجو میں کہاں کہاں سے گزر گئے
ہیں وفا کی راہِ دراز میں نئی منزلیں نئے مرحلے
وہ بنیں گے کیا مرے ہمسفر جو قدم قدم پہ ٹھہر گئے
جنہیں ناخدا سے امید تھی انہیں ناخدا نے ڈبو دیا
جو الجھ کے رہ گئے موج سے وہ کبھی کے پار اتر گئے
جو کبھی شرابِ نشاط ہے تو ہے زہرِ غم کبھی جام میں
ہے یہ زندگی کوئی زندگی ابھی جی اٹھے ابھی مر گئے

وہ نگاہ کیسی نگاہ تھی کہ شمیؔم سے نہ وہ چھپ سکے
یہ ادا بھی قابلِ دید ہے جو ملے تو بچ کے گزر گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام