کیا کسی میکش نے مانگی ہے دعا برسات کی

غزل| ساحؔر سیالکوٹی انتخاب| بزم سخن

کیا کسی میکش نے مانگی ہے دعا برسات کی
میکدہ بر دوش آتی ہے گھٹا برسات کی
کیوں ہوا باندھے نہ اب ہر پارسا برسات کی
بے پیے مدہوش کرتی ہے فضا برسات کی
ایک مدت سے ہمیں بھولا ہوا تھا میکدہ
کچھ تقاضا کر رہی ہے پھر ہوا برسات کی
یوں اڑایا جا رہا تھا میرے رونے کا مذاق
آج اس نے بات چھیڑی بارہا برسات کی
شغل مے نوشی ہے جائز اس لئے برسات میں
کچھ تو پینا چاہئے کھا کر ہوا برسات کی
دہر میں یہ دو ہی چیزیں ہیں دلیلِ برشگال
یا ہماری چشمِ گریاں یا گھٹا برسات کی
ملتی جلتی ہے ہماری چشمِ گریاں سے بہت
اک ذرا پابندِ موسم ہے گھٹا برسات کی
ساون آتے ہی جو ہم روئے کسی کی یاد میں
ہو گئی ساحرؔ یہیں سے ابتدا برسات کی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام