نیرنگیٔ حالات نے یہ دن بھی دکھایا

غزل| رشید کوثرؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

نیرنگیٔ حالات نے یہ دن بھی دکھایا
ہاتھوں سے گرایا تھا جو پلکوں سے اٹھایا
دھرتی کو جنھوں نے مہ و انجم سے سجایا
موسی تھے کہ اپنے لئے چھپر بھی نہ چھایا
تا عاقبتِ کار کوئی کام نہ آیا
اپنا بھی پرایا تھا پرایا تو پرایا
محفوظ رہا کون یہاں وقت کی زد سے
ٹھہرے ہوئے پیڑوں کا بھی ٹھہرا نہیں سایا
اب موت بھی دھوئے تو یہ خوشبو نہیں جاتی
اک عمر ترے پیار کو یادوں میں بسایا
بستار بہت اتنی سی جیون کی کتھا کا
کانٹوں نے ستایا کبھی پھولوں نے رجھایا
منزل پہ نظر گاڑے چلا جاتا تھا سرخیل
اک تیر کمیں گاہ سے سینے میں در آیا
ایسوں کے تو چنگل میں ہے قسمت غربا کی
کچھ نام کمایا تو بہت مال کمایا
کیا ترکِ وفا کرتے کبھی وقت پہ دل کو
سو بار رٹایا جو سبق یاد نہ آیا
سیڑھی تھی وہ ان کی ہمیں سولی نظر آئی
ہمت نے جنھیں زندۂ جاوید بنایا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام