کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی

نعت| سید اقبالؔ عظیم انتخاب| بزم سخن

مشہور نعت گو شاعر جناب اقبال عظیم کی نعت*

کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی نہ رومی نہ قدسی نہ جامی
کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی نہ رومی نہ قدسی نہ جامی
پسینے پسینے ہوا جا رہا ہوں
کہاں یہ زباں اور کہاں نامِ نامی
سلام اس شہنشاہِ کون و مکاں پر
درود اس امامِ صفِ مرسلاں پر
پیامی تو بے شک سبھی محترم ہیں
مگر اللہ! ﷲ! خصوصی پیامی
فلک سے زمیں تک ہے جشنِ چراغاں
کہ تشریف لاتے ہیں محبوبِ یزداں
خوشا جلوہِ ماہتابِ مجسم
زہے آمد آفتابِ تمامی
کوئی ایسا ہادی دکھا دے تو جانیں
کوئی ایسا محسن بتا دے تو جانیں
کبھی دوستوں پر نظر احتسابی
کبھی دشمنوں سے بھی شیریں کلامی
اطاعت پہ اصرار بھی ہر قدم پر
شفاعت کا اقرار بھی ہر نظر میں
اصولًا خطاؤں پہ تنبیہ لیکن
مزاجاً خطا کار بندوں کے حامی
یہ آنسو جو آنکھوں سے میری رواں ہیں
عطائے شہنشاہِ کون و مکاں ہیں
مجھے مل گیا جامِ صہبائے کوثر
مرے کام آئی مری تشنہ کامی
فقیروں کو کیا کام طبل وعَلم سے
گداؤں کو کیا فکر جاہ و حشم کی
عباؤں قباؤں کا میں کیا کروں گا
عطا ہو گیا مجھ کو تاجِ غلامی
انہیں صدقِ دل سے بلا کے تو دیکھو
ندامت کے آنسو بہا کے تو دیکھو
لیے جاؤ اقباؔل نامِ محمد ﷺ
کہ بخشش کا ضامن ہے اسمِ گرامی
کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی نہ رومی نہ قدسی نہ جامی

یہ نعت پاک اردو داں طبقے میں جناب ماہر القادری صاحب سے منسوب کی جاتی رہی ہے جو کہ غلط ہے ، در اصل یہ نعت مشہور نعت گو شاعر جناب اقبالؔ عظیم کی ہے جو کہ ان کی کلیات نعت " زبور حرم " میں موجود ہے۔


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام