تمہیں بھی آغازِ روشنی کے حسیں نظارے تو یاد ہوں گے

غزل| قابلؔ اجمیری انتخاب| بزم سخن

تمہیں بھی آغازِ روشنی کے حسیں نظارے تو یاد ہوں گے
جو اپنی الفت کے رازداں تھے وہ چاند تارے تو یاد ہوں گے
ترا غرورِ جمال مجھ کو جو بھولتا ہے تو بھول جائے
مگر جوانی کی لغزشوں کو مرے سہارے تو یاد ہوں گے
کبھی ستاروں کی روشنی میں تمہیں بھی وحشت ہوئی تو ہوگی
ستم کے ماروں کا غم نہیں تو کرم کے مارے تو یاد ہوں گے
تمہارے بس کا نہیں تلاطم یہی مناسب ہے لوٹ جاؤ
مرے سفینے کے ناخداؤ تمہیں کنارے تو یاد ہوں گے
چمن چمن پہ مرا اثر تھا روش روش پہ مری نظر تھی
ابھی زمانے کی گردشوں کو مرے اشارے تو یاد ہوں گے

اگر کناروں کا عیش پا کر شکستہ کشتی کو بھولتے ہو
جہاں نظر تم بدل گئے تھے وہ تیز دھارے تو یاد ہوں گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام