درد بن جائے جو درماں تو غزل ہوتی ہے

غزل| رفیقؔ پیلی بھیتی انتخاب| ابو الحسن علی

درد بن جائے جو درماں تو غزل ہوتی ہے
چارہ گر بھی لگے حیراں تو غزل ہوتی ہے
کوئی بسمل جو ہو شاداں تو غزل ہوتی ہے
کوئی قاتل ہو پشیماں تو غزل ہوتی ہے
شب کو آنے کا یقیں پورا دلا کر شب میں
توڑ ڈالے کوئی پیماں تو غزل ہوتی ہے
یاس کے گھور اندھیرے میں اچانک کوئی
شمع ہو جائے فروزاں تو غزل ہوتی ہے
ٹیس اٹھتی ہے غزل بن کے مرے سینے سے
زخم کرتا ہے جو احساں تو غزل ہوتی ہے
ظلمتِ ہجر میں رہ رہ کے کسک اٹھنے سے
ہو کٹھن رات بھی آساں تو غزل ہوتی ہے
ایک چنگاری جو مستور ہے میرے دل میں
رات کو کر دے درخشاں تو غزل ہوتی ہے
پھول کھلتے ہیں تو ہوتی ہے چمن میں خوشبو
دل میں ہوتا ہے چراغاں تو غزل ہوتی ہے
عالمِ شوق ملاقات میں پروانے سے
شمع ہوتی ہے گریزاں تو غزل ہوتی ہے
مجھ سے سرگوشیاں کرتی ہے خموشی شب کی
اور پھر اٹھتا ہے طوفاں تو غزل ہوتی ہے
آرزو پائے جو تکمیل تو ہوتی ہے فنا
گھٹ کے رہ جائے جو ارماں تو غزل ہوتی ہے

بے کراں جور و ستم ہی نہیں لاتے اس کو
ہو کرم بھی جو فراواں تو غزل ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام