آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا

غزل| فضاؔ ابن فیضی انتخاب| ابو الحسن علی

آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا
خم چم تمام اپنا بس اک اس کے دم سے تھا
وہ کیا گیا کہ آگ بھی پانی بھی لے گیا
ٹوٹا تعلقات کا آئینہ اس طرح
عکسِ نشاط لمحۂ فانی بھی لے گیا
کوچے میں ہجرتوں کے ہوں سب سے الگ تھلگ
بچھڑا وہ یوں کہ ربطِ مکانی بھی لے گیا
تھے سب اسی کے لمس سے جل تھل بنے ہوئے
دریا مڑا تو اپنی روانی بھی لے گیا
اب کیا کھلے گی منجمد الفاظ کی گرہ
وہ ہمتِ کشود معانی بھی لے گیا

سر جوشیٔ قلم کو فضاؔ چپ سی لگ گئی
وہ جاتے جاتے شعلہ بیانی بھی لے گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام