کچھ ہوا پاگل تھی کچھ موسم بھی سنجیدہ نہ تھا

غزل| ملک زادہ منظورؔ انتخاب| بزم سخن

کچھ ہوا پاگل تھی کچھ موسم بھی سنجیدہ نہ تھا
شاخِ گل کو کاٹ کر کوئی بھی رنجیدہ نہ تھا
خون کی بارش تھی اور سر سبز تلواروں کی فصل
قریۂ نفرت کا کوئی جرم پوشیدہ نہ تھا
نشر گاہِ زندگی میں تھی فقط ماضی کی گونج
حال و مستقبل پہ کوئی شخص نم دیدہ نہ تھا
چاند نکلا پھول مہکے ہوگیا پچھلا پہر
اُس کی یاد آئی تو منظر کوئی خوابیدہ نہ تھا

زلفِ گیتی کو سنوارا تھا کہ سلجھی زلفِ یار
مسئلہ منظورؔ یہ بھی کوئی پیچیدہ نہ تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام