معتبر ٹھہری اگر یاروں کی دانائی تو کیا

غزل| آل احمد سرورؔ انتخاب| بزم سخن

معتبر ٹھہری اگر یاروں کی دانائی تو کیا
یہ مری دیدہ وری میرے نہ کام آئی تو کیا
ہوگئیں طوفاں میں کتنی کشتیاں زیر و زبر
کچھ نمی سی دیدۂ ساحل میں گر آئی تو کیا
لے لیا وحشی کو زنجیروں نے جب آغوش میں
ناز سے شانے پہ اُن کے زلف لہرائی تو کیا
میکشوں کا زہرِ غم نے کر دیا قصہ تمام
میکدے پر جھوم کر کالی گھٹا چھائی تو کیا
یوں بھی کب وحشت ہماری تھی زمانے کو پسند
بڑھ گئی جوشِ جنوں میں اور رسوائی تو کیا
آپ کو بھی کچھ حقائق نے دیے ہوں گے عذاب
میں رہا گر چند خوابوں کا تمنائی تو کیا
شہر کے دانشوروں کو جشن سے فرصت نہ تھی
دشت سے کوئی صدائے درد گر آئی تو کیا
ہم تو محفل میں بھی تنہا ہی رہے ہیں اے سرورؔ
بڑھ گئی ہے ان دنوں کچھ اور تنہائی تو کیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام