ہم ترے شہر میں پھرتے ہیں مگر ایسے ہی

غزل| منورؔ ہاشمی انتخاب| بزم سخن

ہم ترے شہر میں پھرتے ہیں مگر ایسے ہی
ہم پہ پڑ جائے کبھی تیری نظر ایسے ہی
جانے منزل تھی کہاں اور کہاں جانا تھا
عمر بھر کرتے رہے ہم تو سفر ایسے ہی
ہم نے سوچا ہے کئی بار اُدھر مت جائیں
پھر بھی چل پڑے ہیں ہر بار اُدھر ایسے ہی
دشت در دشت سفر کر کے جو اُس تک پہنچے
اُس نے بس اتنا کہا آج کدھر ایسے ہی
ہم کو ٹھکرا کے وہ رخصت ہوا یہ کہتے ہوئے
اور پھرتے ہیں بہت خاک بسر ایسے ہی

چاند پر جا کر منورؔ ہمیں احساس ہوا
ہم اسے کہتے رہے رشکِ قمر ایسے ہی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام