کیوں مرے مقدر پر آپ ہاتھ ملتے ہیں

غزل| حقؔ کانپوری انتخاب| بزم سخن

کیوں مرے مقدر پر آپ ہاتھ ملتے ہیں
کچھ چراغ ایسے ہیں بجھتے ہیں نہ جلتے ہیں
حسن و عشق دونوں ہی ساتھ ساتھ چلتے ہیں
پتھروں کی نگری میں آئینے بھی ڈھلتے ہیں
ہم نے اب یہ سوچا ہے ذہنیت کو بدلیں گے
وقت کب بدلتا ہے آدمی بدلتے ہیں
دل ترے توجہ سے ہے تو مطمئن لیکن
یہ ہماری فطرت ہے ڈھونڈنے نکلتے ہیں
ظرف کس کا کتنا ہے کام ہے یہ ساقی کا
رند کا بھروسہ کیا گرتے ہی سنبھلتے ہیں
اب تو دل کے گوشوں سے یوں دھواں سا اٹھتا ہے
جیسے بند کمرے میں خط کسی کے جلتے ہیں

ہم تو حقؔ پریشاں ہیں ان حسین چہروں سے
آپ کچھ بھی کر گزریں یہ کہاں پگھلتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام