چادر جو کہیں حسنِ رخِ یار کی سرکی

غزل| حسرتؔ موہانی انتخاب| بزم سخن

چادر جو کہیں حسنِ رخِ یار کی سرکی
قابو میں طبیعت نہ رہی ذوقِ نظر کی
سوتے میں جو دیکھا تھا رخِ یار کا عالم
آنکھوں میں یہ خنکی ہے اُسی نورِ سحر کی
ہے شوق بھی گرویدہ ترے نقشِ قدم کا
مائل ہے عقیدت بھی ترے سجدۂ در کی
چاہا تھا کہ پھر ان کو نہ چھیڑیں گے پہ چھیڑا
خواہش کوئی پھر اُن سے نہ کرنی تھی مگر کی
آ جاتی ہے ناگاہ جدائی کی مصیبت
ہوتی ہے خبر کس کو ترے عزمِ سفر کی
یا حسن ہے یا عشق ہر اک نقش یہاں کا
کیا بات ہے اے شوخ ترے راہ گذر کی
کچھ فائدہ حسرتؔ نہ ہوا ضبطِ ہوس کا
پوشیدہ محبت نہ رہی 'ش' بسر کی​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام