حسنِ بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا

غزل| حسرتؔ موہانی انتخاب| بزم سخن

حسنِ بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا
بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اک حشر برپا کر دیا
ہم رہے یاں تک تری خدمت میں سرگرمِ نیاز
تجھ کو آخر آشنائے نازِ بے جا کر دیا
اب نہیں دل کو کسی صورت کسی پہلو قرار
اس نگاہِ ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا
عشق سے تیرے بڑھے کیا کیا دلوں کے مرتبے
مہر ذرّوں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا
کیوں نہ ہو تیری محبت سے منوّر جان و دل
شمع جب روشن ہوئی گھر میں اجالا کر دیا
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

سب غلط کہتے تھے لطفِ یار کو وجہِ سکوں
دردِ دل اس نے تو حسرتؔ اور دونا کر دیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام