مرے لب پہ کوئی نوا نہیں مری دھڑکنوں میں صدا نہیں

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

مرے لب پہ کوئی نوا نہیں مری دھڑکنوں میں صدا نہیں
میں ہوں اپنے حال پہ مطمئن مجھے اس جہاں سے گلہ نہیں
کبھی زخمِ دل کو کیا ہرا کبھی دردِ دل کی کی دوا
ہے یہی مسیحا کا مشغلہ یہ مرے مرض کی دوا نہیں
کسی معتبر کی تلاش تھی مجھے راہبر کی تلاش تھی
مرا اعتماد جو بن سکے کوئی مجھ کو ایسا ملا نہیں
یہ مرا الم یہ ہجومِ غم ہے جو آنکھ نم یہ ترا کرم
یہ جو صبر آزما دور ہے کہیں یہ عقاب ترا نہیں
یہ بغاوتیں ، یہ شرارتیں ، یہ اذیتیں ، یہ رقابتیں
ابھی سلسلہ یہ رکا نہیں ابھی دورِ ظلم مٹا نہیں
یہ تو عاشقی کی ہے ابتدا یہ نگاہِ ناز کی ہے ادا
ابھی کوئی تیر چلا نہیں ابھی کوئی قتل ہوا نہیں

تو مٹا کے چاہتِ سیم و زر ائے سعیدیؔ فکرِ مآل کر
تو نے عاقبت کے لئے کبھی کوئی کارِ خیر کیا نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام