یہ کس نے کہا تم کوچ کرو باتیں نہ بناؤ انشاؔء جی

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

ابن انشاؔء کی انشاؔء جی اٹھو اب کوچ کرو غزل پر قتیلؔ شفائی کے جوابی غزل
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو باتیں نہ بناؤ انشاؔء جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاؔء جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا ان سے بھی منہ پھیرو گے یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشاؔء جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے اُن کو نہ رلاؤ انشاؔء جی
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی اک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اس دیس نہ جاؤ انشاؔء جی
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا مت زہر ملاؤ انشاؔء جی
اک رات تو کیا وہ حشر تلک رکھے گی کھلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے سجنی کو بتاؤ انشاؔء جی
نہیں صرف قتیلؔ کی بات یہاں کہیں ساحرؔ ہے کہیں عالیؔ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے دامن نہ چھڑاؤ انشاؔء جی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام