اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا آج ستا لے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کردیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام