آنسو ہمارے خاک میں ہم کو ملا گئے

غزل| خمارؔ بارہ بنکوی انتخاب| بزم سخن

آنسو ہمارے خاک میں ہم کو ملا گئے
ہم نے ہی تیر مارے ہمیں زد پہ آ گئے
پایا انھیں تو ہجر کے صدمے رلا گئے
منزل ملی تو راہ کے غم یاد آ گئے
دو دن کی زندگی تھی کہ صدیوں کا تھا سفر
ہم کیا بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے
تخلیقِ اشک آتشِ دل سے ہوئی مگر
غم ناشناس شعلے کو شبنم بتا گئے
کیا گزری ان پہ حضرت ناصح بتائیے
جو سادہ لوح آپ کی باتوں میں آ گئے
ہر رات ہم بساتے رہے اک بہشتِ نو
ہر صبح لوٹ کے اسی دوزخ میں آ گئے

توبہ کے بعد جب کبھی چھائی گھٹا خمارؔ
رحمت سے چھیڑ چھاڑ کے دن یاد آ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام